جواں بیٹے کا لاشہ دیکھ کر آنسو نہیں نکلے میں اک کشمیر کی ماں ہوں، مرے آنسو نہیں نکلے میری وادی میں خوشیاں قید ہیں، ہم مسکراتے ہیں دفن پیاروں کو کر کے بھی مرے آنسو نہیں نکلے جبر کی رات لمبی ہے، سیہ ہے پرختم ہوگی یقیں ہے صبح نو کا جو، مرے آنسو نہیں نکلے یہاں پر عزتیں ہم بیٹیوں بہنوں کی رلتی ہیں سروں سے چادریں چھینی گئیں ، آنسو نہیں نکلے مجھے باطل نے قیدوبند، سولی سے ڈرایا ہے مگر ان اوچھے حربوں سے مرے آنسو نہیں نکلے اگر اس فانی دنیا میں مجھے امید ہے کوئی وہ تم سے ہے کہ جس کی آس پر آنسو نہیں نکلے ہم آنسو تھام کر بیٹھے تمھارے منتظر کب سے خدارا تم کرو ہمت، کہ یہ آنسو نہیں نکلے تمھاری خامشی میرا یقیں اب ڈگمگاتی ہے مجھے تو تم پہ حیرت ہے کہ کیوں آنسو نہیں نکلے مدد کو تم بھی نہ پہنچے، تو پھر کچھ یوں ہوا پہلے کہ آنکھیں نم ہوئی تھیں بس، مرے آنسو نہیں نکلے مگر اب ضبط کے بندھن یہ سارے توڑ ڈالے ہیں وہ آنسو جو کبھی روکے ہوئے تھے چھوڑ ڈالے ہیں ہمیں تکلیف گر پہنچی، تو وہ اپنوں سے پہنچی ہے وگرنہ غاصبوں کے جبر سے آنسو نہیں نکلے
Add comment