Hamari Ibadatain Bay Asar Kyun?

مغربی تہذیب کے فاسد اصول

موجودہ تہذیب جس پر آج دنیا کا پورا فکری ، اخلاقی ، تمدنی، سیاسی اورمعاشی نظام چل رہا ہے دراصل تین بنیادی اصولوں پر قائم ہے۔

(1) Secularismیعنی لادینیت

(2) Nationalismیعنی قوم پرستی

(3) Democracyیعنی حاکمیت جمہور

ان میں سے پہلے اصول،یعنی لادینیت کا مطلب یہ ہے کہ خدا اور اس کی ہدایت اور اس کی عبادت کے معاملے کو ایک ایک شخص کی ذاتی حیثیت تک محدود کردیا جائےاور انفرادی زندگی کے اس چھوٹے سے دائرے کے سوا دنیا کے باقی تمام معاملات کو ہم خالص دنیوی نقطہ نظر سے اپنی صوابدید کے مطابق خود جس طرح چاہیں طے کریں۔ ان معاملات میں یہ سوال خارج از بحث ہونا چاہیے کہ خدا کیا کہتا ہے اور اس کی ہدایت کیا ہے اور اس کی کتابوں میں کیا لکھا ہے۔ ابتداءً یہ طرز عمل اہل مغرب نےعیسائی پادریوں کی اس خود ساختہ دینیات Theologyسے بے زار ہوکر اختیار کیا تھا جو ان کےلیےزنجیر پا بن کررہ گئی تھی لیکن رفتہ رفتہ یہی طرزعمل ایک مستقل نظریہ حیات بن گیا اور تہذیب جدید کا پہلا سنگِ بنیاد قرارپایا۔ آپ نےاکثریہ فقرہ سنا ہوگاکہ مذہب خدا اور بندے کے درمیان ایک پرائیویٹ معاملہ ہے۔ یہ مختصر سا فقرہ دراصل تہذیب حاضرکا کلمہ ہے۔ اس کی شرح یہ ہے کہ اگر کسی کا ضمیرگواہی دیتا ہے کہ خدا ہے اور اس کی پرستش کرنی چاہیے تو وہ اپنی انفرادی زندگی میں بخوشی اپنے خدا کو پوجے،مگردنیا اور اس کے معاملات سے خدا اور مذہب کا کوئی تعلق نہیں۔ اس کلمہ کی بنیاد پر جس نظام زندگی کی عمارت اٹھی ہے اس میں انسان اور انسان کے تعلق اور انسان اور دنیا کے تعلق کی تمام صورتیں خدا اور مذہب سے آزاد ہیں۔ معاشرت ہے تو اس سے آزاد، تعلیم ہے تو اس سے آزاد، معاشی کاروبار ہے تو اس سے آزاد، قانون ہے تو اس سے آزاد، پارلیمنٹ ہے تو اس سے آزاد، سیاست اور انتظام ملکی ہے تو اس سے آزاد، بین الاقوامی ربط وضبط ہے تواس سے آزاد، زندگی کے ان بے شمار مختلف پہلوؤں میں جو کچھ بھی طےکیاجاتا ہے اپنی خواہش اور دانست کے مطابق طے کیاجاتا ہے اور اس سوال کو نہ صرف ناقابل لحاظ، بلکہ اصولاً غلط اور انتہائی تاریک خیال سمجھا جاتا ہےکہ ان امور کے متعلق خدا نے بھی کچھ اصول اور احکام ہمارے لیے مقرر کیے یا نہیں۔ رہی انفرادی زندگی ، تو وہ بھی غیر دینی تعلیم اور بے دین اجتماعیت کی بدولت اکثر و بیشتر افراد کے معاملے میں نری دنیاویSecularہی ہو کر رہ گئی ہےاور ہوتی چلی جا رہی ہےکیونکہ اب بہت ہی کم افراد کا ضمیر واقعی یہ گواہی دیتا ہے کہ خدا ہے اور اس کی بندگی کرنی چاہیے،خصوصاً جولوگ اس وقت تمدن کے اصلی کارفرما ور کارکن ہیں، ان کے لیے تو مذہب اب ایک پرائیویٹ معاملہ بھی باقی نہیں رہا ہے، ان کا ذاتی تعلق بھی خدا سے ٹوٹ چکا ہے۔

دوسرے اصول،یعنی قوم پرستی کی ابتدا تو پوپ اور قیصر کے عالمگیر استبداد کے خلاف بغاوت کے طور پرہوئی تھی اور اس کا مطلب صرف اتنا تھا کہ مختلف قومیں اپنی اپنی سیاست و مصلحت کی آپ ہی مالک و مختار ہوں، کسی عالمگیر روحانی یا سیاسی اقتدار کے ہاتھوں میں شطرنج کے مہروں کی طرح نہ کھیلیں، مگر اس معصوم آغاز سے چل کر جب یہ تخیل آگے بڑھا تو رفتہ رفتہ نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ جس جگہ سے بے دینی کی تحریک نے خدا کوبے دخل کیا تھاوہاں قوم پرستی نے قومیت کو لابٹھایا۔ اب ہر قوم کےلیے بلند ترین اخلاقی قدر اس کا قومی مفاد اوراس کے قومی حوصلےAspirationsہیں۔ نیکی وہ ہے جو قوم کےلیے مفید ہو،خواہ وہ جھوٹ ہو،بے ایمانی ہو، ظلم ہو، یا اور کوئی ایسا فعل ہو جو پرانے مذہب و اخلاق میں بدترین گناہ سمجھا جاتا تھا اور بدی وہ ہے جس سے قوم کے مفاد کو نقصان پہنچے خواہ وہ سچائی ہو،انصاف ہو، وفائے عہد ہو اور ادائےحق ہو یا اور کوئی ایسی چیز جسے کبھی فضائل واخلاق میں شمار کیاجاتاتھا۔ افراد قوم کی خوبی اور زندگی وبیداری کا پیمانہ یہ ہے کہ قوم کا مفاد ان سے جس قربانی کا مطالبہ بھی کرے خواہ وہ جان و مال اور وقت کی قربانی ہو یا ضمیر و ایمان کی، اخلاق وانسانیت کی قربانی ہو یا شرافتِ نفس کی، بہرحال وہ اس میں دریغ نہ کریں اور متحد و منظم ہوکر قوم کے بڑھتے ہوئے حوصلوں کوپورا کرنے میں لگے رہیں۔ اجتماعی کوششوں کی غایت اب یہ ہے کہ ہر قوم ایسے افراد کی زیادہ سے زیادہ تعداد بہم پہنچائے اور ان میں ایکا اور نظم پیدا کرے تاکہ وہ دوسری قوموں کے مقابلے میں اپنی قوم کا جھنڈا بلند کریں۔

تیسرے اصول،یعنی جمہور کی حاکمیت (Sovereignty the people)کو ابتداءً بادشاہوں اور جاگیر داروں کے اقتدار کی گرفت توڑنے کے لیے پیش کیاگیا تھا اور اس حد تک بات درست تھی کہ ایک شخص یا ایک خاندان یا ایک طبقہ کو لاکھوں کروڑوں انسانوں پر اپنی مرضی مسلط کردینے اور اپنی اغراض کے لیے انہیں استعمال کرنے کاکوئی حق نہیں ہے. ایک ایک ملک اور ایک ایک علاقے کے باشندے اپنے آپ حاکم اور اپنے آپ مالک ہیں۔ اسی پہلو پر ترقی کر کے جمہوریت نے اب جو شکل اختیار کی ہے وہ یہ ہے کہ ہر قوم اپنی مرضی کی مختار کل ہے۔ اس کی مجموعی خواہش(یاعملاً اس کی اکثریت کی خواہش)کو پابند کرنے والی کوئی چیز نہیں ہے۔ اخلاق ہو یا تمدن، معاشرت ہو یا سیاست، ہر چیز کے لیے برحق اصول وہ ہیں جو قومی خواہش سے طے ہوں، اور جن اصولوں کو قوم کی رائے عامہ رد کردے وہ باطل ہیں۔ قانون، قوم کی مرضی پر منحصر ہے، جو قانون چاہے بنائے اور جس قانون کو چاہے توڑ دے یا بدل دے۔ حکومت قوم کی رضا کے مطابق بننی چاہیے، قوم ہی کی رضا کااسے پابند ہونا چاہیے اور اس کی پوری طاقت قومی خواہش کو پورا کرنے پر صرف ہونی چاہیے۔

یہ تین اصول موجودہ دور کے نظام زندگی کی بنیاد ہیں اور انھی پر وہ بے دین جمہوری قومی ریاست Secular Demo crated National State بنتی ہے جسے آج کل اجتماعی تنظیم کی مہذب ترین معیاری صورت سمجھا جاتا ہے۔

ہمارے نزدیک یہ تینوں اصول غلط ہیں۔ صرف غلط ہی نہیں، ہم پوری بصیرت کے ساتھ یقین رکھتے ہیں کہ یہی اصول ان تمام مصائب کی جڑ ہیں جن میں آج انسانیت مبتلا ہے۔ ہماری عداوت دراصل انھی اصولوں سے ہے اور ہم اپنی پوری طاقت کےساتھ ان کے خلاف لڑنا چاہتے ہیں۔ ہمیں ان اصولوں پر کیااعتراض ہے اور کیوں اعتراض ہے؟ اس کی تفصیل کے لیے تو بڑی لمبی بحث درکار ہے، تاہم اس کی مختصر وضاحت سےآپ کو سمجھ آ جائےگی کہ کیوں یہ معاملہ اتنا سنگین ہے کہ ان اصولوں کے خلاف جنگ کرنا ناگزیر ہے۔

لادینی اور اس کی قباحت
سب سے پہلے اس لادینی یا دنیاویت کو لیجیےجواس نظام زندگی کا اولین سنگِ بنیاد ہے۔ یہ نظریہ کہ خدا اور مذہب کا تعلق صرف آدمی کی انفرادی زندگی سے ہے، سراسر ایک مہمل نظریہ ہے جسے عقل و خرد سے کوئی سروکار نہیں۔ ظاہر بات ہے کہ خدا اور انسان کا معاملہ دو حال سے خالی نہیں ہوسکتا۔ یا تو خدا انسان کا اور اس ساری کائنات کا جس میں انسان رہتا ہے، خالق اور مالک اور حاکم ہے، یا نہیں ہے۔ اگر وہ نہ خالق ہے نہ مالک ہےاورنہ حاکم، تب تو اس کےساتھ پرائیویٹ تعلق کی بھی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ نہایت لغو بات ہے کہ ایک ایسی غیر متعلق ہستی کی خواہ مخواہ پرستش کی جائے جس کا ہم سے کوئی واسطہ ہی نہیں ہے۔ اور اگر وہ فی الواقع ہمارا اور اس تمام جہانِ ہست وبود کا خالق، مالک اور حاکم ہے تو اس کےکوئی معنی نہیں ہیں کہ اس کی عملداری jurisdictionمحض ایک شخص کی پرائیویٹ زندگی تک محدود ہو اور جہاں سے ایک اور ایک یعنی دو آدمیوں کا اجتماعی تعلق شروع ہوتا ہے وہیں سے اس کے اختیارات ختم ہوجائیں۔ یہ حد بندی ا گر خدا نے خود کی ہے تو اس کی کوئی سند ہونی چاہیے۔اور اگر اپنی اجتماعی زندگی میں انسان نے خدا سے بے نیاز ہوکر خود ہی خود مختاری اختیار کی ہے تو یہ اپنے خالق اور مالک اورحاکم سے اس کی کھلی بغاوت ہے۔ اسی بغاوت کے ساتھ یہ دعوٰی کہ ہم اپنی انفرادی زندگی میں خدا کو اور اس کے دین کو مانتے ہیں ، صرف وہی شخص کر سکتا ہے جس کی عقل ماری گئی ہو۔ اس سے زیادہ لغو بات اور کیا ہوسکتی ہے کہ ایک ایک شخص فرداً فرداً تو خدا کا بندہ ہو مگر الگ الگ بندے جب مل کر معاشرے بنائیں تو بندے نہ رہیں۔ اجزاء میں سے ہرایک بندہ اور اجزاء کا مجموعہ غیر بندہ، یہ ایک ایسی بات ہے جس کا تصور صرف ایک پاگل ہی کرسکتا ہے۔ پھر یہ بات کسی طرح ہماری سمجھ میں نہیں آتی کہ اگر ہمیں خدا کی اور اس کی رہنمائی کی ضرورت نہ اپنی خانگی معاشرت میں ہے، نہ محلے اور شہر میں، نہ مدرسے اور کالج میں، نہ منڈی اور بازار میں، نہ پارلیمنٹ اور گورنمنٹ ہاؤس میں، نہ ہائی کورٹ اور سول سیکرٹریٹ میں، نہ چھاؤنی اورپولیس لائن میں اورنہ میدانِ جنگ اورصلح کانفرنس میں، توآخر اس کی ضرورت ہےکہاں؟ کیوں ایسے خدا کو مانا جائے اور اس کی خواہ مخواہ پوجا پاٹ کی جائے جو یا تو اتنا بے کا ر ہے کہ زندگی کے کسی معاملے میں بھی ہماری رہنمائی نہیں کرتا، یا معاذاللہ ایسا نادان ہے کہ کسی معاملے میں بھی اس کی کوئی ہدایت ہمیں معقول اور قابل عمل نظر نہیں آتی؟

یہ تو اس معاملے کا محض عقلی پہلو ہے۔ عملی پہلو سے دیکھیے تو اس کے نتائج بڑے ہی خوف ناک ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ انسان کی زندگی کے جس معاملے کا تعلق بھی خدا سے ٹوٹتا ہے اس کا تعلق شیطان سے جڑ جا تا ہے۔ انسان کی پرائیویٹ زندگی درحقیقت کسی چیز کا نام نہیں ہے۔ انسان ایک متمدن ہستی ہے اور اس کی پوری زندگی اصل میں اجتماعی زندگی ہے۔ وہ پیدا ہی ایک ماں اور ایک باپ کے معاشرتی تعلق سے ہوا ہے۔ دنیا میں آتے ہی وہ ایک خاندان میں آنکھیں کھولتا ہے، ہوش سنبھالتے ہی اس کو ایک سوسائٹی سے ، ایک برادری سے،ایک بستی سے،ایک قوم سے، ایک نظام تمدن اور نظامِ معیشت و سیاست سے واسطہ پیش آتا ہے۔ یہ بےشمارروابط جو اس کو دوسرے انسانوں سے اور دوسرے انسانوں کو اس سے جوڑے ہوئے ہیں، انہی کی درستی پر ایک ایک انسان کی اور مجموعی طور پرتمام انسانوں کی فلاح و بہبود کا انحصا رہے۔اوروہ صرف خدا ہی ہےجو انسانوں کوان روابط کے لیے صحیح اورمنصفانہ اور پائیدار اصول وحدود بتاتا ہے۔ جہاں انسان اس کی ہدایت سے بے نیاز ہوکرخود مختاربنا،پھرنہ تو کوئی مستقل اصول باقی رہتا ہےاورنہ انصاف اور راستی۔ اس کے لیے خدا کی رہنمائی سے محروم ہوجانے کے بعد خواہش اور ناقص علم و تجربہ کے سوا کوئی چیز ایسی نہیں رہتی جس کی طرف انسان رہنمائی کے لیے رجوع کر سکے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ جس سوسائٹی کا نظام لادینیت یا دنیاویت کے اصول پر چلتا ہے اس میں خواہشات کی بنا پر روز اصول بنتے اور ٹوٹتے ہیں۔ آپ خود دیکھ رہے ہیں کہ انسانی تعلقات کے ایک ایک گوشے میں ظلم، بے انصافی، بے ایمانی اور آپس کی بے اعتمادی گھس گئی ہے۔ تمام انسانی معاملات پر انفرادی، طبقاتی،قومی اور نسلی خود غرضیاں مسلط ہوگئی ہیں۔ دوانسانوں کے تعلق سے لےکرقوموں کے تعلق تک کوئی رابطہ ایسا نہیں رہا جس میں میں ٹیڑھ نہ آگئی ہو۔ ہرایک شخص نے، ہر ایک گروہ نے، ہر ایک طبقے نے، ہر ایک قوم اور ملک نے اپنے اپنے دائرہ اختیار میں، جہاں تک بھی اس کا بس چلا ہے، پوری خود غرضی کے ساتھ اپنے مطلب کے اصول اور قاعدے بنالیے ہیں اور اس کی پروا کرانے والی صرف ایک ہی طاقت رہ گئی ہےاور وہ ہے جوتا۔ جہاں مقابلے میں جوتا یا جوتے کا اندیشہ ہوتا ہے صرف وہیں اپنی حد سے زیادہ پھیلے ہوئے ہاتھ اور پاؤں کچھ سکڑ جاتے ہیں۔ مگر ظاہر ہےکہ جوتا کسی عالم اور منصف ہستی کا نام نہیں ہے۔ وہ تو ایک اندھی طاقت کا نام ہے۔ اس لیے اس کے زور سے کبھی توازن قائم نہیں ہوتا۔ جس کا جوتا زبردست ہوتا ہے وہ دوسروں کوصرف اتنا ہی نہیں سکیڑتا جتنا سکیڑناچاہیے بلکہ وہ خود اپنی حد سے زیادہ پھیلنے کی فکر میں لگ جاتا ہے ۔ پس لادینی اور دنیاویت کاماحصل صرف یہ ہے کہ جو بھی اس طرز عمل کو اختیارکرے گا بے لگام، غیر ذمہ دار اور بندہ نفس ہوکر رہے گا خواہ وہ ایک شخص ہو یا ایک گروہ یا ایک ملک اور قوم یا مجموعہ اقوام۔

قوم پرستی اور اس کی شناخت
اب دوسرے اصول کو لیجیے۔ قوم پرستی کی جوتشریح ابھی تھوڑی دیر پہلے آپ کے سامنے گزری ہے وہ اگر آپ کے ذہن میں تازہ ہے توآپ خود سمجھ سکتے ہیں کہ یہ کتنی بڑی لعنت ہے جو س دور میں انسانیت پر مسلط ہوئی ہے۔ ہمارا اعتراض قومیت Nationality پر نہیں ہے، کیونکہ وہ ایک فطری حقیقت ہے۔ ہم قومی خیر خواہی کے بھی مخالف نہیں بشرطیکہ اس کے اندر دوسری قوموں کی بدخواہی شامل نہ ہو۔ ہمیں قومی محبت پر بھی کوئی اعتراض نہیں ہےبشرطیکہ وہ قومی تعصب اور اپنی قوم کی بے جا پاسداری اور دوسروں سےنفرت کی حد تک نہ جا پہنچے۔ ہم قومی آزادی کوبھی صحیح سمجھتے ہیں کیونکہ اپنے معاملات کا خود انجام دینااور اپنے گھر کا آپ انتظام کرنا ہر قوم کاحق ہےاور ایک قوم پر دوسری قوم کی حکومت درست نہیں ہے۔ دراصل جو چیز ہمارے ہاں قابل اعتراض بلکہ قابل نفرت ہے وہ قوم پرستیNationalismہے۔ اس قوم پرستی کی کوئی حقیقت اس کے سوا نہیں ہے کہ وہ قومی خود پرستی کادوسرا نام ہے۔ اگر ایک سوسائٹی کے اندر اس شخص کا وجود ایک لعنت ہے جو اپنے نفس اور اپنی غرض کا بندہ ہو اور اپنے مفاد کے لیے سب کچھ کر گزرنےکے لیے تیار ہو،اگر ایک بستی کے اندر وہ خاندان ایک لعنت ہے جس کے افراد اپنے خاندانی مفاد کے اندھے پرستار ہوں اور جائزوناجائز تمام ذرائع سے بس اپنا بھلا کرنے پر تُلے ہوں، اگر ایک ملک کے اندر وہ طبقہ ایک لعنت ہے جو اپنی طبقاتی خود غرضی میں اندھا ہو رہا ہو اور دوسروں کےبھلے برے کی پروا کیے بغیر صرف اپنے فائدے کےپیچھے پڑجائے (مثلاً بلیک مارکیٹنگ کرنے والا) توآخر انسانیت کے وسیع دائرے میں خود غرض قوم ایک لعنت کیوں نہیں ہےجواپنے قومی مفاد کو اپنا خدا بنالےاور ہر جائز و ناجائز طریقے سےاس کی پوجا کرنےلگے؟ آپ کا ضمیرگواہی دے گا کہ تمام خود غرضیوں اور نفسانیتوں کی طرح یہ قومی خودغرضی و نفسیات بھی یقیناً ایک لعنت ہے، مگر آپ دیکھ رہے ہیں کہ آج اس تہذیب جدید نے تمام قوموں کواسی لعنت میں مبتلاکردیا ہے اور اس کی بدولت ساری دنیا ایسے اکھاڑوں میں تبدیل ہوگئی ہے جن میں سے ہر اکھاڑے کی دوسرے اکھاڑے سے لاگ ڈانٹ ہے اور دو عالمگیر دنگل ہوچکنے کے بعد ابھی پسینہ بھی خشک نہیں ہوا ہے کہ تیسرے دنگل کے لیے ڈنٹر خم تازہ کیے جارہے ہیں۔

جمہوریت اور اس کا فساد
تیسرا اصول پہلے دونوں اصولوں کے ساتھ مل کر اس بلا کی تکمیل کردیتا ہے،موجودہ تہذیب میں جمہوریت کے معنی ہیں جمہور کی حاکمیت، یعنی ایک علاقے کے لوگوں کی مجموعی خواہش کا اپنے علاقے میں مختارِ مطلق ہونا اور ان کا قانون کے تابع نہ ہونا بلکہ قانون کا ان خواہش کے تابع ہونا اور حکومت کی غرض صرف یہ ہونا کہ اس کا نظم اور اس کی طاقت لوگوں کی اجتماعی خواہشات کو پورا کرنے کے کام آئے۔ اب غور کیجیے کہ پہلے تولادینی نے ان لوگوں کو خدا کے خوف اور اخلاق کے مستقل اصولوں کی گرفت سے آزاد کرکے بے لگام اور غیر ذمہ دار اور بندہ نفس بنادیا ، پھر قوم پرستی نے ان کو شدید قسم کی قومی خود غرضی اور اندھی عصبیت اور قومی غرور کے نشے سے بدمست کردیا، اور اب یہ جمہوریت انہی بے لگام بدمست بندگانِ نفس کی خواہشات کو قانون سازی کے مکمل اختیارات دیتی ہے اور حکومت کا واحد مقصد یہ قرار دیتی ہےکہ اس کی طاقت ہر اس چیز کے حصول میں صرف ہو جس کی یہ لوگ اجتماعی طور پر خواہش کریں۔ سوال یہ ہے کہ اس طرح کی خود مختار صاحب حاکمیت قوم کا حال آخر ایک طاقت وربدمعاش کے حال سے کس بات میں مختلف ہوگا۔ جوکچھ ایک بدمعاش فرد خود مختار اورطاقت ور ہوکر چھوٹے پیمانے پر کرے گا، وہی تو اس سے بہت زیادہ بڑے پیمانے پر اس طرح کی ایک قوم کرے گی۔ پھر جب دنیا میں صرف ایک ہی قوم ایسی نہ ہو بلکہ ساری متمدن قومیں اسی ڈھنگ پر بے دینی، قوم پرستی اور جمہوریت کے اصولوں پر منظم ہوں تو دنیا بھیڑ یوں کا میدانِ جنگ نہ بنےگی تو اورکیابنےگی؟ یہ وجوہ ہیں جن کی بنا پر ہم ہر اس نظامِ اجتماعی کو فاسد سمجھتے ہیں جوان تین اصولوں کی بنیادہے۔ ہماری دشمنی لادینی قومی جمہوری نظام سے ہے، خواہ اس کے قائم کرنے اور چلانے والے مغربی ہوں یا مشرقی، غیر مسلم ہوں یا نام نہاد مسلمان، جہاں، جس ملک اور جس قوم پر بھی یہ مسلط ہوگی، ہم بندگانِ خدا کو اس سے ہوشیار کرنے کی فکر کریں گے کہ اسے دفع کرو۔

تین صالح اصول
ان تین اصولوں کے جواب میں ہم دوسرے تین اصول پیش کرتے ہیں اور سب انسانوں کے ضمیر سے اپیل کرتے ہیں کہ انھیں جانچ کر، پرکھ کر خود دیکھ لو، کہ تمہارا اپنا بھلا اور ساری دنیا کا بھلاان پاک اصولوں میں ہے یا ان خبیث اصولوں میں؟

لادینی کے مقابلے میں خدا کی بندگی اوراطاعت

قوم پرستی کے مقابلے میں انسانیت

جمہور کی حاکمیت میں خدا کی حاکمیت اور جمہور کی خلافت

خدا پرستی کے معنی
پہلے اصول کا مطلب یہ ہے کہ ہم سب اس خدا کو اپنا آقا تسلیم کریں جو ہمارا اور تمام کائنات کا خالق، مالک اور حاکم ہے۔ ہم اس سے آزاد اور بے نیاز بن کر نہیں بلکہ اس کے تابع فرمان اور اس کی رہنمائی کے پیرو بن کر زندگی بسر کریں ۔ ہم صرف اس کی پوجا ہی نہ کریں بلکہ اس اس کی اطاعت اوربندگی بھی کریں۔ ہم صرف فرداً فرداً اپنی پرائیویٹ حیثیت ہی میں اس کے احکام اور ہدایات کے پابند نہ ہوں بلکہ اپنی اجتماعی زندگی کے بھی ہر پہلو میں اسی کے پابند ہوں۔ ہماری معاشرت،ہمارا تمدن، ہماری معیشت، ہمارا نظامِ تعلیم و تربیت، ہمارے قوانین، ہماری عدالتیں،ہماری حکومت،ہماری صلح وجنگ اورہمارے بین الاقوامی تعلقات، سب کے سب ان اصولوں اور حدوں کےپابند ہوں جو خدا نے مقرر کیے ہیں، ہم اپنے دنیوی معاملات کو طے کرنے میں بالکل آزاد نہ ہوں بلکہ ہماری آزادی ان سرحدوں کے اندر محدود ہو جو خدا کے مقرر کیے ہوئے اصول اورحدود نے کھینچ دی ہیں۔ یہ اصول اور حدود ہر حال میں ہمارے اختیارات سے بالاتر رہیں۔

انسانیت کا مطلب
دوسرے اصول کا مطلب یہ ہے کہ خدا پرستی کی بنیادپرجو نظامِ زندگی بنے اس میں قوم، نسل،وطن،رنگ اور زبان کے فرق و امتیاز کی بنا پر کسی قسم کے تعصبات اور خود غرضیاں راہ نہ پائیں۔ وہ ایک قومی نظام کے بجائے ایک اصولی نظام ہونا چاہیے جس کے دروازے ہر اس انسان کے لیے کھلے ہوئے ہوں جو اس کے بنیادی اصولوں کو مان لے، اور جو انسان بھی ان کو مان جائے وہ بغیر کسی امتیاز کے پورے مساویانہ حقوق کے ساتھ اس میں شریک ہوسکے۔ اس نظام میں شہریتcitizenshipکی بنیاد پیدائش اور نسل و وطن پر نہ رکھی جائے بلکہ صرف اصول پر رکھی جائے۔ رہے وہ لوگ جوان اصولوں پر مطمئن نہ ہوں یا کسی وجہ سے ان کو ماننے کے لیے تیار نہ ہوں تو ان کو مٹانے اور دبانے اور ہضم کرنے کی کوشش نہ ہو بلکہ وہ متعین حقوق کے ساتھ اس نظام کی حفاظتprotectionمیں رہیں اور ان کے لیے ہر وقت یہ موقع کھلا رہے کہ جب بھی ان اصولوں کی صحت و درستی پر ان کو اطمینان ہوجائے وہ برابر کے حقوق کے ساتھ اپنی آزادانہ مرضی سے اس نظام کے شہری بن سکیں۔ یہ چیز جس کو ہم اصولِ انسانیت سے تعبیر کر رہے ہیں قومیت کی نفی نہیں کرتی بلکہ اسےاس کی صحیح فطری حد میں رکھتی ہے۔ اس میں قومی محبت کے لیے جگہ ہے مگر قومی تعصب کےلیے جگہ نہیں ہے، قومی خیرخواہی جائز ہے مگر قومی خود غرضی حرام ہے، قومی آزادی مسلم ہے اور ایک قوم پردوسری قوم کے خود غرضانہ تسلط سے بھی سخت انکار ہےمگر ایسی قومی آزادی ہرگز تسلیم نہیں ہے جوانسانیت کو ناقابل عبور حدوں میں تقسیم کردے۔ اصولِ انسانیت کا مطالبہ یہ ہے کہ اگرچہ ہر قوم اپنے گھر کا انتظام آپ کرےاور کوئی قوم من حیث القوم دوسری قوم کے تابع نہ ہو،لیکن تمام وہ قومیں جو تہذیب انسانی کے بنیادی اصولوں میں متفق ہوجائیں ان کے درمیان انسانی فلاح و ترقی کے کاموں میں پورا تعاون ہو۔ مسابقت competitionکے بجائے معاونت ہو،باہم امتیازات اور تعصبات اور تفریقیں نہ ہوں بلکہ تہذیب و تمدن اور اسباب زندگی کا آزادانہ لین دین ہو اور اس مہذب نظامِ زندگی کے تحت زندگی بسر کرنے والی دنیا کا ہر انسان اس پوری دنیا کا شہری ہو،نہ کہ ایک ملک اور ایک قوم کا۔ حتٰی کہ وہ کہہ سکے کہ

ہرملک ملکِ ماست کہ ملکِ خدائےماست

موجودہ حالت کوہم ایک قابلِ نفرت حالت سمجھتے ہیں جس میں ایک انسان نہ تو خود ہی اپنی قوم اور ملک کے سوا کسی دوسری قوم اور ملک کا وفادار ہوسکتا ہے اورنہ کوئی قوم اپنے افراد کے سوا دوسری کسی قوم کے افراد پر اعتماد کرسکتی ہے۔ آدمی اپنے ملک کے حدود سے باہر نکلتے ہی یہ محسوس کرتا ہے کہ خدا کی زمین میں ہر جگہ اس کے لیے رکاوٹیں ہیں، ہر جگہ وہ چوروں اور اچکوں کی طرح شبہ کی نظر سے دیکھا جاتا ہے، ہر جگہ پوچھ گچھ ہے، تلاشیاں ہیں،زبان و قلم، نقل وحرکت پر پابندیاں اور کہیں اس کے لیے نہ آزادی ہے نہ حقوق۔ ہم اس کے مقابلے میں ایسا عالمگیر نظام چاہتے ہیں جس میں اصولوں کی وحدت کو بنیاد بنا کر قوموں کے درمیان وفاق قائم ہو اور اس وفاق میں بالکل مساویانہ اور مشترک شہریتcommon citizenship اوربے روک ٹوک آمد و رفت کا طریقہ رائج ہو۔ ہماری آنکھیں پھر ایک دفعہ یہ منظر چاہتی ہیں کہ آج کا کوئی ابن بطوطہ اٹلانٹک کے ساحل سے بحر الکاہل کے جزائر تک اس طرح جائے کہ کہیں بھی وہAlienنہ ہو اور ہرجگہ اس کے لیے جج ،مجسٹریٹ،وزیر یا سفیر بن جانے کا موقع ہو۔

خلافتِ جمہور کا مفہوم
اب تیسرے اصول کو لیجیے. ہم جمہوری حاکمیت کے بجائے جمہوری خلافت کےقائل ہیں۔ شخصی بادشاہ Monarchyاور امیروں کے اقدار اور طبقوں کی اجارہ داری کے ہم بھی اتنے ہی مخالف ہیں جتنا موجودہ زمانے کاکوئی بڑے سے بڑا جمہوریت پرست ہو سکتاہے۔ اجتماعی زندگی میں تمام لوگوں کے یکساں حقوق، مساویانہ حیثیت اور کھلے مواقع پر ہمیں بھی اتنا ہی اصرار ہے جتنا مغربی جمہوریت کے کسی بڑے سے بڑے حامی کو ہوسکتا ہے۔ ہم بھی اس بات کے قائل ہیں کہ حکومت کا انتظام اور حکمرانوں کا انتخاب تمام باشندوں کی آزادانہ مرضی اور رائے سے ہونا چاہیے۔ ہم بھی اس نظامِ زندگی کے سخت مخالف ہیں جس میں لوگوں کے لیے اظہارِ رائے کی آزادی،اجتماع کی آزادی اور سعی و عمل کی آزادی نہ ہو، یا جس میں پیدائش اورنسل اور طبقات کی بنا بعض لوگوں کےلیے مخصوص حقوق اور بعض دوسرے لوگوں کے لیے مخصوص رکاوٹیں ہوں، یہ امور جو جمہوریت کا اصل جوہر Essenceہیں، ان میں ہماری جمہوریت اور مغربی جمہوریت کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے۔ ان میں سے کوئی چیز بھی ایسی نہیں ہے جو اہل مغرب نے ہمیں سکھائی ہو۔ ہم اس جمہوریت کو اس وقت سے جانتے ہیں اور دنیا کو اس کا بہترین عملی نمونہ دکھا چکے ہیں جب کہ مغربی جمہوریت پرستوں کی پیدائش میں ابھی سینکڑوں برس کی دیر تھی۔ دراصل ہمیں اس نوخیز جمہوریت سے جس چیز میں اختلاف اور نہایت سخت اختلاف ہے ، وہ یہ ہے کہ یہ جمہور کی مطلق العنان بادشاہی کا اصول پیش کرتی ہے اور ہم اسے حقیقت کے اعتبار سے غلط اور نتائج کے اعتبار سے تباہ کن سمجھتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بادشاہیSovereigntyصرف اس کا حق ہے جس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے، جوان کی پرورش اور بالیدگی کا سامان کر رہا ہے، جس کے سہارے پر ان کی اور ساری دنیا کی ہستی قائم ہے اور جس کے زبردست قانون کی گرفت میں کائنات کی ایک ایک چیزجکڑی ہوئی ہے۔ اس کی واقعی اورحقیقی بادشاہی کے اندر جس بادشاہی کا بھی دعوٰی کیاجائے گا، خواہ ایک شخص اور ایک خاندان کی بادشاہی ہو یا ایک قوم اوراس کے عوام کی، بہرحال وہ ایک غلط فہمی کے سوا کچھ نہ ہوگا اور اس غلط فہمی کی چوٹ کائنات کے اصل بادشاہ پر نہیں بلکہ اس احمق مدعی پر پڑے گی جس نے اپنی قدرخود نہ پہچانی۔ اس حقیقت میں صحیح بھی یہی ہے اور نتائج کے اعتبار سے انسان کی بھلائی بھی اسی میں ہے کہ خدا کو حاکم مان کرانسانی زندگی کا نظام حکومت خلافت و نیابت کے نطریہ پر بنایا جائے۔ یہ خلافت بلا شبہ جمہوری ہونی چاہیے، جمہور کی رائے ہی سے حکومت کے امیر یا ناظم اعلٰی کا انتخاب ہونا چاہیے۔ انھی کی رائے سے اہلِ شورٰی منتخب ہونے چاہییں۔ ہماری پارلیمنٹ کا اساسی نظریہ یہ ہونا چاہیے کہ جن امور میں خدا نےہمیں ہدایات دی ہیں ان میں ہم قانون سازی نہیں کریں گے بلکہ اپنی ضروریات کےلیے خداکی ہدایات سے تفصیلی قوانین اخذ کریں گے۔ اور جن امور میں خدا نے ہدایات نہیں دی ہیں ان میں ہم یہ سمجھیں گے کہ خدا نے خود ہی ہم کو آزادیِ عمل بخشی ہے اس لیے صرف انھی امور میں ہم باہمی مشورے سے قوانین بنائیں گے۔ مگر یہ قوانین لازماً اس مجموعی سانچے کے مزاج سے مطابقت رکھنے والے ہوں جو خدا کی اصولی ہدایات نے ہمارے لیے بنادیا ہے۔ پھر یہ ضروری ہےکہ پورے نظام تمدن وسیاست کی کارفرمائی اوراس کا انتظام ان لوگوں کے سپرد ہوجو خدا سے ڈرنے والے اور ا س کی اطاعت کرنے والےاور ہر کام میں اس کی رضا چاہنے والے ہوں۔ جن کی پبلک اور پرائیویٹ دونوں قسم کی زندگیوں سے یہ شہادت ملے کہ وہ بے لگام گھوڑے کی طرح نہیں ہیں جو ہر کھیت میں چرتا اور ہر حد کو پھاندتا پھرتا ہو بلکہ ایک الٰہی ضابطہ کی رسی سے بندھے ہوئے اورایک خداپرستی کے کھونٹے سے مربوط ہیں اوران کی ساری چلت پھرت اسی حد تک محدود ہے جہاں تک وہ رسی انہیں جانے دیتی ہے۔

خود فیصلہ کیجئے
حضرات! یہ تینوں اصول ، جن کی بہت ہی مختصرتشریح آپ کے سامنےبیان کی گئی ہے موجودہ تہذیب کی قوم پرستانہ، لادینی، جمہوری حاکمیت کے مقابلہ میں ایک خدا پرستانہ، انسانی، جمہوری خلافت قائم کرنا چاہتے ہیں اوراسی کا قیام ہمارا نصب العین ہے. یہ بات تو آپ بیک نظر معلوم کرسکتے ہیں کہ ان دونوں نظاموں کے درمیان کیا اختلاف ہے۔ اب یہ فیصلہ آپ کے اپنے ضمیر پر منحصر ہے کہ ان میں سے کون بہتر ہے، کس میں آپ کی فلاح ہے، کس کے قیام کا آپ کو خواہش مند ہونا چاہیے اور کس کے قائم کرنے اور قائم رکھنے میں آپ کی قوتیں صرف ہونی چاہییں